بار اتنا کیوں ڈھو رہا ہے تو؟
پھر سے کشتی ڈبو رہا ہے تو،
ٹوٹ کر جو بکھر گئے رشتے،
پھر لڑی میں پرو رہا ہے تو؟
اپنی آنکھوں کو تر کئے ، سارے
خشک منظر بھگو رہا ہے تو،
کچھ جو خوشیاں بھی مل رہی ہیں اب،
سیلِ غم میں ڈبو رہا ہے تو،
ہم کو رونے کی بھی نہیں فرصت،
اور مدت سے رو رہا ہے تو،
جڑ پکڑتی ہیں الفتیں جاں تک،
شجرِ الفت تو بو رہا ہے تو،
یوں ہی بھٹکے گا در بدر پیارے،
خاک صحرا کی ہو رہا ہے تو،
پی کے سجدے ادا نہیں ہوتے
دل نہیں داغ دھو رہا ہے تو
آپ ہی زخم آپ مرہم بھی
کتنا دلچسپ ہورہا ہے تو
تجھ پہ کہنے لگا غزل احسن
ہر گھڑی دل میں جو رہا ہے تو