نوید سحر سی خبر لایا کوئی
کوئے یار سے ہے شائد آیا کوئی
یاد ہے تیرا ملامت کرنا
بعد اس کے نہ مسکرایا کوئی
سرخ آسماں کو دیکھا تو خیال آیا
کسی یا د کا بہت ہے ستایا کوئی
میری پیاس رہی صبر کا امتحاں
اک قطرہ نہ خدا نے برسایا کوئی
آج چلا ہے پھر کوئی اس دنیا سے
پھر شجر نے ہے پتہ گرایا کوئی
یاد کروں جو ان آنکھوں کی چمک
ستارہ سا دل میں جگمگایا کوئی
آبادیاں بھی دیکھو ویرانیاں ہیں
دل عیاز میں شہر ہے بسایا کوئی