درپن نے اگر میری وکالت ہی نہیں کی
پھر طے ہے میں نے تم سے محبت ہی نہیں کی
پوچھا ہزار ہا پتہ اپنے وجود کا
دل نے اے دوست کھل کے وضاحت ہی نہیں کی
کچھ یوں ہوا کہ حسن رہا احتیاط میں
کچھ یہ بھی ہے کہ عشق نے ہمت ہی نہیں کی
اک انقلاب شوق رہا اضطراب میں
تیری نظر نے بڑھ کے بغاوت ہی نہیں کی
آئے نہ کھل کے سامنے گر راز کائنات
بس سمجھ لوکہ ہم نے عبادت ہی نہیں کی
فطرت کی چل رہی تھی سخاوت بھری فضا
دل نے بیان اپنی ضرورت ہی نہیں کی