پھر ملاقات کی جیسے کہ بیاں سے آئی
دل میں یوں آن بسا، دید زماں سے آئی
شوخیاں بھول گئے عمر کے ڈھلتے ڈھلتے
آنکھ میں ناچتی معصوم بتاں سے آئی
موت کا رقص ہے افسردگیٔ جاں کا علاج
جل بجھی شمع تو پروانے تپاں سے آئی
کوئی اس درد کے رشتے کو نبھائے کیوں کر
چارہ سازی جو کرے وہ تو کہاں سے آئی
فاصلہ رکھیے دلوں میں مگر اتنا بھی نہیں
درمیاں جیسے یہ دیوار وہاں سے آئی
دیکھ کر شہر خرد کی یہ کشاکش وشمہ
دشت احساس کے ویرانےخزاں سے آئی