کل دیکھا ہے کس نے جو کل کو یاد کیجیے
گزر جاؤں جو یہاں سے تو پھر نہ آواز دیجیے
تھما دیا ہے میرے ہاتھ میں جام ساغر آپ نے
اب محفل میں اپنی مجھکو آنیکا اختیار دیجیے
گستاخ میں نہیں یہ تو آداب محفل ہیں
ہوں جب تلک مہماں بنکے میزباں میرا ساتھ دیجیے
دوام نہں زندگی پھر کیوں کل کی بات کیجیے
منتظر ہوں آ پکے فیصلے کا جو کہنا ہے آج کہ دیجیے
افسانے تو ہر دم افسانے ہی رہیں گے خواہ کوئ نام دیجیے
گر نہ رہے ہم تو بعد رخصتی کے پھر ملننے کی دعا کیجیے