مجھے کوئی یاد آتا ہے شب بھر
خواب سہانے دکھاتا ہے شب بھر
نگاہوں سے نیند روٹھ گئی ہو جیسے
اسطرح کوئی جگاتا ہے شب بھر
ہلکی پھلکی چاندنی کے سائے میں
کوئی عکس لبھاتا ہے شب بھر
یاد کے جگنو پھر خوب جگمگاتے ہیں
جب کوئی ستاتا ہے شب بھر
ہواؤں کے ساتھ سفر جاری رہتا ہے
جب کوئی چھو کر جاتا ہے شب بھر
اک پھول گلاب کا تیرتا رہتا ہے
اور پانی نئی کہانی بناتا ہے شب بھر
سفیدی فلک کی جب زمیں پہ اترتی ہے
کسی کا جادوائی حصار بن جاتا ہے شب بھر
پھر نیند دستک نہیں دیتی پلکوں پہ
جب کوئی دیپ جلاتا ہے شب بھر
پیار کی اک تمنا طوفانی
لہر بن جاتی ہے
جب کوئی سوچ میں سماتا ہے شب بھر