پھر چھائی رات کی سیاہی
پھر لی تیری یاد نے انگڑائی
پھر درد جاگا دل میں
پھر تیری راہگزر یاد آئی
چار سو پھیلی بوئے چمن
جب بھی تیری زلف لہرائی
پھر ابھرا افق پہ چاند
پھر دھرتی دودھ میں نہائی
پھر چلا تو بچھڑ کے
پھر بجی درد کی شہنائی
یوں آنکھوں میں اترا تو
ہر شے حسین نظر آئی
حبیب ڈوبا نہ پیار کا سفینہ
بحر ہجر نے تو قیامت ڈھائی