پھر کسی غلط فہمی کا شکار کیوں ہو ؟
دل اسکے بارے بدگمان یار کیوں ہو ؟
گر نہیں اس پر بھروسہ تو پھر ؟
دل کو کسی اور پر اعتبار کیوں ہو ؟
زخم تازہ ہیں یار ابھی الفت کے۔
بہتے ریشے کو پھر قرار کیوں ہو ؟
ابھی تو ابتدا ھے مراحل عشق کی۔
ہنوز دل اسکی چاھت سے دستبردار کیوں ہو ؟
مانا کہ کر بیٹھا ھے کوئی خطا ظالم۔۔
ہاں مگر دل اسقدر شرم سار کیوں ہو ؟
وہ جو خود سے رکھے مطلب سدا۔۔۔
وہ کسی سورت وفا شعار کیوں ہو ؟
اس کو رخصت جب ہونا ھے آخر۔۔۔
تو دل افسردہ آنکھ اشک بار کیوں ہو ؟
رونق محفل ھے اگر اس کا آ نا۔۔۔
تو اور پھر مزید انتظار کیوں ہو ؟
اے شمع الفت تیرا پروانہ !!!
مر مٹے تجھ پر جان نثار کیوں ہو ؟
مانا کہ اسے سونپ دی ھے زندگی ہم نے۔
ہاں مگر وہ صاحب کل اختیار کیوں ہو ؟
وہ جو بچھڑا ھے اپنی مرضی سے
غم میں اسکے آنکھ اشک بار کیوں ہو ؟