پھر کسی وقت پر اُٹھا رکھو
آرزوئیں مگر بچا رکھو
حاجتوں کا پتہ نہیں ہوتا
کوئی تو راستہ کھُلا رکھو
مبتلا ہو گئے محبت میں
بس کہ لازم ہے اب دوا رکھو
اپنی رنگت سُفید کھو دے گا
اس کو ہر رنگ سے جُدا رکھو
وہ اسی راستے سے آئے گا
پھول رکھو تو جابجا رکھو
جب بھی آئے ہو کام سے آئے
اک ملاقات بے وجہ رکھو رکھو
دل ہے اظہر صنم کدہ تو نہیں
بُت نکالو، وہاں خُدا رکھو