پھر یوں ہوا کہ زندگی لہروں میں بہہ گئی
وہ جاتے جاتے بات ہی کچھ ایسی کہ گئی
وہ جس کو میں وفا کا تھا پیکر سمجھ رہا
سوچا نہ تھا کہ نکلے گی وہ ایسی بے وفا
کہنے لگی کہ ساتھ تیرا چھورتی ہوں میں
رشتہ جو تم نے جورا تھا وہ توڑتی ہوں میں
پوچھا جو اس سے میں نے کہ کیا ہے میری خطا
ایسابھی کیا ہے جرم کہ اتنی بری سزا۔
میرے کسی سوال کا وہ بن دئیے جواب
کہنے لگی کہ چھور دو پانے کے مجھکو خواب
پھریوں ہوا کہ راستے اپنے ہوئے جدا
اس نے میری وفاؤں کا ہے یہ صلہ دیا
باتوں سے مجھکو فیصل وہ پریشان کر گئی
اک پل میں میری زندگی ویران کر گئی