Add Poetry

پھر یوں ہوتا ہے کہ ساروں کو سزا ملتی ہے

Poet: سید ایاز مفتی ( ابنِ مفتی) By: سید ایاز مفتی ( ابنِ مفتی), Houston TX USA

بھیک میں مانگے سہاروں کو سزا ملتی ہے
لہر بپھرے تو کناروں کو سزا ملتی ہے

ایک کم ظرف بھی گھس جائے اگر اِس صف میں
ایک ان دیکھی سی یاروں کو سزا مِلتی ہے

آپ کو شوق چرایا ہے تو لے چلتا ہوں
جس جگہ عشق کے ماروں کو سزا مِلتی ہے

سائے جب شام کے آتے ہی نکل جاتے ہیں
گھر تو کیا اسکی دواروں کو سزا ملتی ہے

بے رخی کی جو عدالت میں نہ شنوائی ہو
کتنے مخمور اشاروں کو سزا ملتی ہے

جب بھی مسکان سے بلکوری بنے گالوں پر
لب پہ خواہش کی قطاروں کو سزا ملتی ہے

انکے کاکل جو کریں سایہ کبھی عارض پر
کتنے نورانی نظاروں کو سزا ملتی ہے

زخم دل جب بھی ہرا ہو تو چمن میں دیکھا
سارے سرسبز نظاروں کو سزا ملتی ہے

جب بھی اقلیم خزاں دیکھی چمن زاروں پر
پوچھ مت کتنی بہاروں کو سزا ملتی ہے

جرم جب ضبط کی حد توڑنے کا اشک کریں
پھر جو آنکھوں کے ستاروں کو سزا ملتی ہے

عدل مٹ جاتا ہے یکسر جو کسی بستی میں
پھر یوں ہوتا ہے کہ ساروں کو سزا ملتی ہے

جرم افراد کا ہوتا ہے اگرچہ مفتی
جانے کیوں پھر بھی اداروں کو سزا ملتی ہے

Rate it:
Views: 118
24 May, 2023
Related Tags on Love / Romantic Poetry
Load More Tags
More Love / Romantic Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets