پھول خوشی کے ہر طرف کھلنے لگے ہیں
تجھے دیکھ کر ہی جینے لگے ہیں
مسکرا دیتے ہیں تنہائی میں بھی
بھیڑ میں تجھے ڈھونڈنے لگے ہیں
اب اندھیری راتوں سے ڈر نہیں لگتا
چاند کے اس پار تجھے کھوجنے لگے ئیں
قابومیں نہیں رہتی دھڑکن دل
ہوش و قرار اپنا کھونے لگے ہیں
چھوٹے سے بچے کی مانند دل کی ضد پہ
تجھ سے ملنے کو جزبات مچلنے لگے ہیں
پہلے تو بھاگتے تھے ساون سے
بارشوں میں اب خود کو بگھونے لگے ہیں
تجھ سے دوری کا سوچ کر ہم
بھٹکتی روح سا تڑپنے لگے ہیں
تجھے پا لیا تو شکرگزار ہو کر
اپنی قسمت پہ رشک کرنے لگے ہیں