پھول سے خوشبو ابھی برہم نہیں
پھر بھی تیری یاد کے موسم نہیں
پھول کیسے مسکرائیں دوستو!
میرے ہونٹوں پر اگر شبنم نہیں
تو بھی میری آرزو میں جل گیا
میں بھی تیرے ہجر میں کچھ کم نہیں
میں وفا کی خواہشوں میں لٹ گئی
اور بھی کوئی لوٹ لے تو غم نہیں
زندگی کے بڑھ رہے ہیں فاصلے
زندگی کی دوڑ میں اب ہم نہیں
آرزو ہی آرزو ہے ہر طرف
ایک دوجے میں کوئی مدغم نہیں
ناچتی ہے موت میرے سامنے
زندگی کے ساز میں سرگم نہیں
حال اس مجذوب کا بھی پوچھئے
وشمہ جس کے زخم پہ مرہم نہیں