پھول کتنے چمن میں کھل جائیں
لوگ بچھڑے کبھی جو مل جائیں
حادثے کتنے ہی روز ہوتے ہیں
حالات شاید کبھی بدل جائیں
مجھ سے بچھڑا ہے اس طرح سے وہ
چہرے آئینے سے رخ بدل جائیں
اب تو منزل ہے نہ ہمراہی ہے
کہیں غم دنیا میں ہم بھی ڈھل جائیں
تجھے دیکھیں تو دل یہ چاہتا ہے
حد سے آگے کہیں نکل جائیں
اب مئے خانے کو کیا کریں ساقی
لوگ پیتے ہی جو سنبھل جائیں
داغ دل کے ابھی کچھ باقی ہیں
تو آجا تو یہ بھی دھل جائیں
اشتیاق چراغ جلتے رہیں گے الفت کے
اب دل سے وہ بھی اگر نکل جائیں