سفر یوں زندگی کا گزرتا جا رہا ہے
پھول کوئی خزاں میں سمٹتا جا رہا ہے
تنہا تھے تو تنہائی کا جب سے وہ منسوب ہے مجھ سے
اس وقت سے جدائی کا غم بڑھتا جا رہا ہے
مجھے محبت میں اس نے کیا ہے رسوا
الزام بے وفائی کا مجھ پر لگتا جا رہا ہے
میسر ہوگا انہیں دن رات کا سکون
دن رات کا چین یہاں تو مٹتا جارہا ہے
خیالوں میں جب رس گھولے اس کی آواز
جیسے پھولوں پر کوئی شبنم برسائے جارہا ہے
لگتا ہے ان کو مجھ سے محبت نہیں ہے شاَز
پھر کیوں اپنے اس دل کو بہلائے جارہا ہے