اک نظر اور اٹھا اس دل کو قرار بخش دے
بھیک نایاب عطا کر تو اپنا پیار بخش دے
جو کسی طرح بھی زمانے نے نہ پایا ہو کبھی
ہاں ھمیں ایسا تو کوئی اختیار بخش دے
چوٹ گہری ھے لگی دل پر پیار میں تیرے
غم کے مارے نہ مر جائیں تھوڑا اعتبار بخش دے
دل کے تاریک اندھیروں میں چراغ امید ھو تم
ما سوا تیرے نہیں کچھ تو آپ یار بخش دے
گر ہوئی کوئی بھی خطا ھے یار سرزد ھم سے
تو ایک بار کی معافی دے اب کی بار بخش دے
ہوں کب سے بیٹھا بے کار نکما زمانے میں
نہ سہی کچھ اور چلو مانہ غم روز گار بخش دے
اسد کی عرضی تو سن لے کہ تہہ دل مانگتا ھے
وہ پہلی سی محبت وہ پہلا پیار بخش دے