پہلی سی انتظار کی شدت نہیں رہی
یعنی کہ ضبط درد کی ہمت نہیں رہی
ایسا نہیں کہ تم سے محبت نہیں رہی
تیری وفا کی لیکن ضرورت نہیں رہی
آؤ گے تو ضرور تواضع کریں گے ہم
پر وہ بلائیں لینے کی عادت نہیں رہی
گویا ہم اہل حسن کے قابل نہیں رھے
گر ہم میں وہ ادا وہ نزاکت نہیں رہی
دیکھا کرے گا کون اب معاملات شہر
بینا تھے جو انھی کی بصارت نہیں رہی
دنیا تیرے مزاج نے جینا سکھا دیا
لے دیکھ ہم میں کوئ شرارت نہیں رہی
چل دل تو سوئے دار چل کیا کام اب تیرا
جس پہ تھا تو دھڑکتا وہ آہٹ نہیں رہی