اب اسے ہماری ضرورت نہیں شاید
پہلے سا پیار باہم محبت نہیں شاید
چلو کوئی نہیں وقت کا تقاضہ تھا یہی
اس دل کی اسکے آگے حیثیت نہیں شاید
یوں بھی ہم فقیر ہیں در در کے بھکاری
منگتوں کی اس جہان میں عزت نہیں شاید
حسن حد مغرور ھے چھڑہتا سورج ھے
ڈھل جانا اس کی فطرت نہیں شاید
ہو کر رھے گا سامنا اس سے حشر میں
ہو کر رھے گا کچھ حیرت نہیں شاید
وہ ملے گا ہم سے فرصت اورجہان پا کر
خیام خیالی ھے دل اپنی قسمت نہیں شاید
عشق میں نا آخوندی گویا جان لیوا مانوں
ذرا سی اسد کوتاہی پھر محلت نہیں شاید
عاشق کو در سے اپنے اٹھائو کس لیئے
دیوانہ ھے تمہارا اور حاجت نہیں شاید