پہلے لکھا تیرا نام ہم نے پھر قلم توڑ دیا
بنا کے تیر زخمی دل میں کاغز کو موڑ دیا
تختہ تھا سیاہ اور سفید رنگ تھا چاک کا
اوڑھی ماتمی پوشاک کھلا گریباں کو چھوڑ دیا
ماتھے میں لکھا تھا در در کا بھٹکنا ہم دم
دے کے دیوار میں ہی سر اپنے کو پھوڑ دیا
مجنوں تھا قیس عشق کی زبوں حالی سے
لیلی نے بھرا زہر سے کاسہ رکابی کو توڑ دیا
چمک رہےتھے تارے پہر آخری تھا شب کا
بدلی کروٹ پھر پکڑ کر کہنی کو مروڑ دیا
بہت پی لیا پلا بھی لیا شب بھر جام تم نے
اٹھو سویراہے ہم نے تو ردا کو اوڑھ لیا