پیار کا بادل برسا ہے
Poet: wasim ahmad moghal By: wasim ahmad moghal, lahoreآج زمینِ یاس پہ میری پیار کا بادل برسا ہے
رنگ حنا کا قوسِ قزح کی صورت ذہن میں اُبھرا ہے
تیری یاد کی سیج پہ بیٹھے پہروں چاند کو دیکھا ہے
سچ پوچھو تو چاند کے اُ وپر تیرا نور جھلکتا ہے
تیرے روپ کی دھوپ سے ہم کو ہجر کی کالی رات ملی
ہجر کی کالی رات کا لیکن ہر اک خواب سنہراہے
تم کیا جانوں کیا لذّت ہے اہل ِ عشق کے رونے میں
میرے لہو ہر اک قطرہ آنسو بن کے ٹپکا ہے
کیسے پھول بنی ہیں کلیاں اہل ِ نظر سے پوچھو تو
ہم نے درد کو لمحہ لمحہ دل پہ اُترتے دیکھا ہے
پھر جا کے ایسا نقش بنا ہے جو میری پہچان ہوا
میرے لہو کا قطرہ قطرہ رگ رگ سے جب ٹپکا ہے
پہلے دل کے آئینے میں ایک ہی تھی تصویر تری
اب ہر اِک ٹکڑے کے اندر تیرا روپ دمکتا ہے
یوں ہی تو رنگین نہیں ہےآنچل میری غزلوں کا
میرے خیالوں کی تتلی نے اِک اِک پھول کو چوما ہے
کتنے ہی دل والوں نے اُمیدیں تم سے باندھی ہیں
کس کی یاد میں اے جاناں یہ کاجل آنکھ کا پھیلا ہے
آج تو میرے دل میں بھی اِس وہم لی ہے انگڑائی
ہے تارہ میری قسمت کا جو اُسکی آنکھ پہ چمکا ہے
سو بار دکھاوْ سکھیوں کو اِک بار دکھا دو مجھ کو بھی
جب میرے لہو سے اے جاناں رنگ دست ِ حنا کا نکھرا ہے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






