پیار کا ہر قصہ ہر کہانی بھول گئے
یاد تھے جو بھی زبانی بھول گئے
یاد نہیں درد بھری کوئی شام ہجر
وصل کی ہر شب سہانی بھول گئے
ہنسے ہیں ہم پہ آج جواں دل
اے دل ہم جوانی بھول گئے
آج ایسے خاموش ہیں کہ پل بھر کو
ہم لفظوں کی تیرے روانی بھول گئے
جب لوٹ کے پھر شہر میں اپنے
ہم اپنے ہی گھر کی نشانی بھول گئے
جب سے بیٹھتے ہیں صاحب خرد کے ساتھ
ہم نے دیکھا ہے آپ نادانی بھول گئے
بند ہونٹوں کو انکار سمجھا انہوں نے
افسوس کہ نیت آزمانی بھول گئے
لکنھے بیٹھے تھے مگر ہوا افسوس عیاز
درد دل کی ہم کہانی بھول گئے