زندگی بھر کسی کا انتظار کر کے دیکھا ہے
اے دوست ہم نے پیار کر کے دیکھا ہے
وہ رشتے ٹوٹ ہی جاتے تو اچھا تھا
نادانی میں جنہیں استوار کر کے دیکھا ہے
زندگی کا فلسفہ زندگی سے سیکھا ہے
کچے گھڑے پہ دریا پار کر کے دیکھا ہے
اصغر کی تمام عمر غم کی نظر ہو گئی
ہم نے محبتیں شمار کر کے دیکھا ہے