سراپا محبت جسے میں نے پایا
ماں تجھ سا شفیق میں نے کوئی نہ پایا
وہ چندہ کی ڈولی وہ اِک میرا چاند تارا
وہ جھولا جُھلاتے تیرا گُنگُنانا
نہیں بھولی میں آج بھی وہ لوریاں
سُنا کہ جسے تُو سُلاتی تھی پیاری ماں
اُنگلی پکڑ کر مجھے وہ چلانا
بچپن کی سیڑھی سے جوانی تک پہنچایا
ہر اِک سر کشی کو تُو نے یوں درگزر کردیا
نہ ہے کوئ تجھ سا نہ ہو گا کبھی بھی
ماں تُو نے کبھی نہ کوئ نُقص نکالا
جو تھا جیسا تھا ہمیشہ ہی سراہا
کبھی نہ جتایا کبھی نہ سُنایا
نہ نعم البدل ہے کوئ اور رشتہ
تو مُجسمِ راحت قلب و رُوح کا
ہے آنکھوں کی ٹھنڈک سکونِ دل کا
بہشت کا راستہ روزِ محشر کا ساماں
نہ ہے کوئ تجھ سا نہ ہو گا کبھی بھی