پیاسوں کے پاس مفلسی کہاں سے آئے گی
دل کا وہ راستہ دلکشی جہاں سے آئے گی
ہم نے آواز تھام کر چپ رہنا بہتر سمجھا
لیکن یہی خوشی خاموشی کہاں سے لائے گی
امید کے احاطے میں سوچیں گھیر لیتی ہیں
منزل کو پوچھو کہ کہاں لے جائے گی
صبح سے سحر تک سب ہرجانے بھرلو
پھر شب سے سلگتی کسی کی یاد آئے گی
ہتھیلی کی لکیروں نے میری تقدیر الٹی لکھی
اور یہ خدا کی خدائی اب کیا بنائے گی
کوئی زندگی چھیننے ہمارے در پر تو آئے
شاید اسی بہانے ملاقات ہو جائے گی