پیتم رنگ چڑھا رکھا ہے
اپنا آپ مٹا رکھا ہے
تو جس ٹھور پہ ملنے آیا
مندر وہاں بنا رکھا ہے
تیری فرقت کی اگنی نے
تن من مرا جلا رکھا ہے
دیوار و در اور چھتوں پر
تیرا نقش بنا رکھا ہے
درشن کے پرساد کو تو نے
اکھیوں کو ترسا رکھا ہے
دیوالی کی روشن شب نے
تیرا روپ چرا رکھا ہے
جس مٹی پر تو ٹہلا تھا
صندل وہاں اگا رکھا ہے
تیرے پریم کا اپنے ماتھے
میں نے تِلَک لگا رکھا ہے
جس کی لو میں تو بیٹھا تھا
دیپ وَہی سلگا رکھا ہے
تیری نارنجی چنری کو
تن کی شال بنا رکھا ہے
راماین کے طاق میں تیرا
اِک اِک پَتر چھپا رکھا ہے
تیرے سندیسے پڑھ پڑھ کے
میں نے بھَجن بنا رکھا ہے
سَرَسوَتی کے شبھ ہاتھوں میں
تیرا قلم تھما رکھا ہے
افرودیتی کے پہلو میں
تجھ سا صنم سجا رکھا ہے
ہر صورت میں تو ہی تو ہے
تجھ میں ایسا کیا رکھا ہے