اُرتی پریاں کبھی
میں نے دیکھی نہ تھیں
پر سنا تھا کہ ہیں
دور آکاش پر محو پرواز ہیں
اور اُونچے پہاڑوں پہ آباد ہیں
کوئی بندہ بشر جا نہ پائے جہاں
برف پوش اُونچے اُونچے پہاڑوں کے باغات کے
میٹھے پھل کھاتی ہیں
اور چناروں کے سائے میں سو جاتی ہیں
اُن دنوں ہی سے میں
جب کہ میں ایک چھوٹا سا بچہ ہی تھا
اس تگ و دو میں ہوں
یا فقط عزم ہے
ایک دن ان پہاڑوں پہ چڑھ جاؤں گا
روندھ کر ہر بلندی کو پیروں تلے
اُن سے مل آؤں گا
وہ جو اُڑتی تو ہیں
پر دکھائی نہ دیں
پیرہن جن کا قوسِ قزح کے حسیں رنگ ہیں
جن کے ماتھے پہ ہے روشنی چاند کی
جن کے لہجوں میں ہے نغمگی راگ کی
اور لعابِ دہن جیسے انگور رس
ایسی پریوں سے الفت بڑھا آؤں گا
ماہ و سال آئے گئے یہ کہانی پرانی ہوئی
بھولی بسری ہوئی
اور اب تو یہ سب کچھ خبر ہے مجھے
ایسی مخلوق کوئی جہاں میں نہیں
کیوں کبھی جب پہاڑوں پہ جاتا ہوں میں
برف پوش اُونچے اُنچے پہاڑوں پہ نظریں ٹھہر جاتی ہیں
دل مچل جاتا ہے
جسم کا ہر رُواں سنسنا جاتا ہے
ایک پیمان خود سے کیا
یاد آجاتا ہے