کتنی خوشی سے
ایک بار پھر
وہ بے سوچے سمجھے کہہ گئے
پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا پتھر کے ہو جاؤ گے
اور میں حماری اس بار بھی
پلٹ پلٹ کر دیکھتی رہی
محض اس بوجھ سے اس غرض سے
میرے ساتھ میرے راستے
سبھی روشن میری منزلیں
اس ذات سے اس خاک سے بہت دور کو جاتی ہیں
پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا پتھر کے ہو جاؤ گے
لیکن اگر نہ دیکھا تو
وہ سمجھے تو
وہ جانے تو
ریزہ ریزہ ہو جاؤں گی
آج پتھر ہو بھی جاؤں گر چٹان کا
پھر پاش پاش ہو جاؤں