چار دن موجیں جو لوٹی تھیں محبت میں میاں
اس لیۓ تو زندگی بھر کی ملی ہیں دوریاں
زندگی بھر سوچنے کے بعد بھی یہ راز ہے
لوگ آ جاتے ہیں کیسے دو دلوں کے درمیاں
ہجر کا مارا سہی لیکن میں ظالم تو نہیں
جانے کیونکر دور مجھ سے بھاگتی ہیں تتلیاں
کیوں گہر آۓ نہیں ہاتھوں میں میرے آج تک
ایک مدت سے تو میں بھی چن رہا ہوں سیپیاں
رات دن خودکش دھماکے کر رہے نوعمر ہیں
کون معصوموں کے دل میں بھر رہا ہے بجلیاں
حکمراں کے کان پر تو رینگتی جوں تک نہیں
خوں میں نہلاۓ ہوۓ بچوں کی سن کر ہچکیاں
صرف اپنی جیب بھرنے کی سبھی کو فکر ہے
کون لاۓ گا بھلا اب ملک میں تبدیلیاں
آئیں گی اس دن سے گھر گھر میں خدا کی رحمتیں
لوگ جس دن مانگنے لگ گۓ خدا سے بیٹیاں
ختم لوگوں کے نہ مجھ سے آج تک شکوے ہوۓ
تھک گیا ہوں خود سے باقرؔ دور کرتے خامیاں