چار سُو درد کے انبار نظر آتے ہیں
بِن ترے ہم پسِ دیوار نظر آتے ہیں
اس طرح درد دیئے مجھ کو مرے اپنوں نے
سارے اپنے مجھے اغیار نظر آتے ہیں
جن کا اک پل نہ گزرتا تھا کبھی میرے بِن
جانے کیوں آج وہ اُس پار نظر آتے ہیں
کوئی کیا رسمِ مسیحائی نبھاۓ گا یہاں
سبھی الفت کے جو بیمار نظر آتے ہیں
جن کی قسمت میں لکھا ہو غمِ الفت کا عذاب
کبھی شاعر یا وہ میخار نظر آتے ہیں
ان کو بھی راس محبت نہیں آئی شاید
وہ جو روتے سرِبازار نظر آتے ہیں
کل تلک ہم بھی تھے آزاد غموں سے باقرؔ
آج سوچوں کے علمدار نظر آتے ہیں