چاند تھا ہمسفر ستارے بھی
منزلوں کے ملے اشارے بھی
چلتے چلتے ہی مل گئے ساتھی
راستے بن گئے سہارے بھی
بھول بیٹھا ہوں میں محبت میں
سب منافع، سبھی خسارے بھی
قبر میں کام کچھ نہیں اآتے
گھر محل بھی، کلس منارے بھی
جی بُرا ہو تو زہر لگتے ہیں
دل لبھاتے حسیں نظارے بھی
موت کہتی ہے پھینک دو ہتھیار
زندگی جنگ پر اُبھارے بھی
عرش پر منتظر ہے رب لیکن
کاش اظہر اُسے پکارے بھی