چاند ستاروں والی روشن راتیں کاجل ہو جاتی ہیں
یاد تری آ جاتی تو آنکھیں بادل ہو جاتی ہیں
مرے وطن پردیس میں مجھ کو ڈستے ہیں جب ہجرناگ
تیری پیاری پیاری یادیں ماں کا آنچل بن جاتی ہیں
جسے اپنے دل کے اندر اپنے رب کو ڈھونڈ لیا
اس کے لب سے نکلی باتیں خوشبو صندل ہو جاتی ہیں
جینا مشکل مرنا مشکل دل قابو میں رکھنا مشکل
دیکھ کے تیرا حسن سراپا سانسیں پاگل ہو جاتی ہیں
انکی طرف سے رہ رہ کر جب طنز کے نشتر چلتے ہیں
دل تو گھائل ہوتے ہی ہیں روحیں گھائل ہو جاتی ہیں
جس کا عزم کا جواں ہوتا ہے جو دنیا سے نہیں ڈرتا
اس کے پاؤں کی زنجیریں بھی وشمہ پائل ہو جاتی ہے