چاند نکلا اور فلک پر ضو فشاں ہونے لگا
درد یادوں کا بڑھا اور بے کراں ہونے لگا
صحن گلشن سے صبا چپکے سے گزری تھی کبھی
اور مجھے تیرے ہی آنے کا گماں ہونے لگا
ہو گئے برہم وہ مجھ سے زلف برہم کی طرح
ہر نفس میرے لیے بار گراں ہونے لگا
شدت غم کا مری کچھ تجھ کو اندازہ نہیں
دل سے نکلا اشک آنکھوں سے عیاں ہونے لگا
دیکھ تیرے غم نے کیا کیا شکل کی ہے اختیار
آنکھ شعلہ سوچ پتھر دل دھواں ہونے لگا
آدمی نے کر دیا ہے تنگ حلقہ زیست کا
ذرہ ناچیز بڑھ کر آسماں ہونے لگا
رنگ ان کے چہرے پہ آتے رہے جاتے رہے
آخر آخر ان کو احساس زیاں ہونے لگا
اے وقار غم یہ تیری خوش نصیبی ہے کہ اب
اپنے غم کا ان کی محفل میں بیاں ہونے لگا