چاند نکلا ہے سر بام وفا شام کے بعد
Poet: ڈاکٹر آفتاب رانجھا By: ڈاکٹر آفتاب رانجھا, Lahoreچاند نکلا ہے سر بام وفا شام کے بعد
ہر طرف دھوپ سی لگتی ہے فضا شام کے بعد
کون لب تشنہ چلا آیا ہے سوئے مقتل
کس کو لے آئی ہے کوفے میں قضا شام کے بعد
جب تری یاد کے کھلتے ہیں دریچے ہم پر
چلنے لگتی ہے بڑی سرد ہوا شام کے بعد
دیکھیے آج بلایا ہے مجھے محفل میں
کون سی لائے گا مجھ پر وہ بلا شام کے بعد
وہ تو سنگدل ہے بھلا کون اسے روکے گا!
زہر سے زہر ملی دے گا دوا شام کے بعد
اے خدا اسکو کبھی رحم نہ آئے مجھ پر
میں تو ہر روز یہ کرتا ہوں دعا شام کے بعد
دوستی اس کی زمانے سے ہے میرے سوا
دے ہی دیتا ہے مجھے زخم نیا شام کے بعد
تم اگر آنا بھی چاہو گے تو لوٹ آنا تم
مل ہی جائے گا تمہیں در یہ کھلا شام کے بعد
صبح گاہی میں چھپا کر جو کہیں بیٹھی رہی
لائے گی دیکھیے کیا باد صبا شام کے بعد
جانے کس جبر سے چھوڑا تھا غم ہجراں کو
وہ بلا پھر سے ہوئی ہم پہ فدا شام کے بعد
غیر سے ملتا ہے جو شام سے پہلے پہلے
ہمیں دیتا ہے نئے غم کی سزا شام کے بعد
یاد رہتے ہیں جسے جرم مرے شام و سحر
بھول جاتا ہے وہی عہد وفا شام کے بعد
رات کے پچھلے پہر پھر سے چلی باد نسیم
دل کے آنگن میں کوئی پھر سے لٹا شام کے بعد
کیسے ہونٹوں پہ کھلے ہیں تری یادو کے گلاب
کیسے تم سے کہیں اے جان ادا شام کے بعد
بڑی مشکل سے تجھے ڈھونڈ کے لائے 'برہم'
تو بھی ہو جاتا ہے کیوں ہم سے جدا شام کے بعد
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






