چاند چہرے سے جو کبھی جو پردہ ہٹا لیتے ہو
میری بربادی کا حسیں سامان لگا لیتے ہو
تم نہ سمجھو گے کبھی کیسے تم ڈھاتے ہو قیامت
ملا کر نظروں جب تم حیاء سے شرما لیتے ہو
خمار جس کا اک مدت سے ہے کہ اترتا ہی نہیں
ایسا جام نگاہوں سے تم کیسے پلا لیتے ہو
سادگی کہ حُسن آتا ہے طواف کرنے، قیامت
اُس پہ زلفوں کو کُھلا شانوں پہ پھیلا لیتے ہو