چاند مدھم ہے بڑھ گئے ہالے
کیسے پھر کوئی دل کو چمکالے
دیکھتا ہی نہیں تڑپ میری
درد سینے میں کوئی کیا پالے
ہم تو تیار ہیں گزرے کو
آگ تھوڑی سی اور دہکا لے
اے مری روح جلد باز نہ بن
ظلم کچھ اور حسن فرمالے
حال اہل جنوں کا کیا کہیے
لب پہ مسکان پاؤں میں چھالے
عشق اتنا بھی کب ضروری ہے
آدمی زندگی کو گہنا لے
تونے دو حرف بھی روانہ نہ کیے
روح میں ہم نے تیرے غم پالے
راستہ تک رہی ہیں تعبیریں
میرے سانچے میں خواب کو ڈھالے