ایک ہی چھت تلے صدیوں کا فاصلہ دیکھا
بیچ رشتوں کے اناؤں کا سلسلہ دیکھا
ہر کوئی وقت کے صحراوں میں ہے سرگرداں
چاند کے پاؤں میں بھی میں نے آبلہ دیکھا
سچ کہہ کر جو ڈالی نظر دوستوں کی طرف
سب کے ہاتھوں میں وہی زہر پیالہ دیکھا
اور پھر یوں ہوا کہ سارے ضبط ٹوٹ گئے
چاندنی رات میں اس نے مجھے تنہا دیکھا
خودبخود جاگ اٹھی سینے میں کانٹوں کی چبھن
جب بھی گلشن میں کوئی پھول آپ سا دیکھا
تیری بے اعتنائی کا کبھی ادراک کیا
ان کہی داستانوں کا کبھی لہجہ دیکھا
تیرے احساس کی وسعت کا جب بھی ذکر چھڑا
دم بدم چاند ستاروں کا سلسلہ دیکھا
اس سمے تیری عنایات بہت یاد آئیں
جب کوئی کھیت پیاسا لب دریا دیکھا
مر گیا تھا جو رند مفلسی میں فاقوں سے
اس کے مرقد پہ لنگروں کا سلسلہ دیکھا
زندگی روٹھ گئی آپ کے نہ ہونے سے
لفظ تو لفظ ،معانی کو بھی بکھرا دیکھا