چاندنی رات ہے کہاں ہو تم
بس سلامت رہو جہاں ہو تم
چاند تارے مجھے نہیں ملتے
میری خاطر تو آسماں ہو تم
زندگی کا تمہیں فسانہ ہو
شاعری کی بھی داستاں ہو تم
اب تعلق نہیں ہے خاک سے بھی
دھڑکنوں میں رواں دواں ہو تم
کوئی بھی چیز کب سلامت ہے
ہاں مگر آج تک جواں ہو تم
دھوپ ہے عکس ہے بلبلیں ہیں مگر
میرے آنگن میں اب کہاں ہو تم
چاند پھیکا لگے دسمبر کا
او مِری چاندنی کہاں ہو تم
سامنے تیرے کیوں بلال نہیں
اس کی آنکھوں کے درمیاں ہو تم