لوگ جو عشق کے جنجال میں آ جاتے ہیں
ساز غم سنتے ہی سُر تال میں آ جاتے ہیں
چشم ودل کیف کی معراج کو چھو لیتے ہیں
چاہ غب غب جو ترے گال میں آجاتے ہیں
روٹھنے والے کو واپس نہیں آتے دیکھا
دن مہنیوں کا ہے کیا سال میں آجاتے ہیں
اس قیامت کو تو چلنے کی ضرورت بھی نہیں
دیکھنے والے جو خود چال میں آ جاتے ہوں
ضرب تقسیم سے ہم جمع نہیں ہو پائے
ایسا کرتے ہیں کہ پڑتال میں آجاتے ہیں
اچھے لوگوں سے کئے عہد نے روکا ورنہ
ہم برے حال تو ہر حال میں آجاتے ہیں
کاش خوشبو ئے مجسم ہو مقدر میرا
جھونکے خوشبو کے تو رومال میں آجاتے ہیں
شکل تعبیر میں گو ڈھلتے ہیں شاذو نادر
خوا ب ہیں چندجو خود فال میں آجاتے ہیں
نہ ہی آورد سبب اور نہ کوئی آمد
شعر بے ساختہ اقوال میں آجاتے ہیں
کام کے کام اکارت نہیں جاتے مفتی
“آپ کے نامہ ء اعمال میں آجاتے ہیں”