چاہا ہے عجب ڈھنگ سے چاہت بھی عجب ہے
محبوب عجب ہے یہ محبت بھی عجب ہے
پلو مرا تھاما ہے کئی بار خرد نے
پر ان دنوں جذبوں کی بغاوت بھی عجب ہے
جکڑا ہے تری یاد نے افکار کو میرے
ہمدم ترے جذبات میں شدت بھی عجب ہے
قربت کے حسیں پھول مری روح پہ وارے
کیا خوب سخی ہے یہ سخاوت بھی عجب ہے
اک عارض گل پر جما شبنم سا وہ قطرہ
کرنوں سے ذرا قبل رفاقت بھی عجب ہے
لہجہ ترا دہکا ہوا لگتا ہے غضب کا
غصے بھرے لہجے میں حرارت بھی عجب ہے
چہرہ ترا تپتا ہوا دکھتا ہے تپش سے
مستی بھرے نینوں میں شرارت بھی عجب ہے
بازی کبھی ہاری نہیں ظالم نے انا کی
چالیں بھی عجب اس کی سیاست بھی عجب ہے
خود قید وفا کاٹ کے دی اس کو رہائی
بانوؔ یہ ترے دل کی عدالت بھی عجب ہے