چاہت نہ ہوئی، بھیک ہوئی

Poet: رشید حسرت By: رشید حسرت, کوئٹہ

پیار سے ہاتھ لیا کھینچ تو تضحیک ہوئی
عشق میں رابطہ رہنے کی تو تصدیق ہوئی

تو اگر مجھ سے ہے وابستہ تو اظہار بھی کر
منہ سے مانگی ہوئی، چاہت نہ ہوئی، بھیک ہوئی

جب تلک نسخ میں تحریر تھی تہذیب رہی
اِس کی شاگرد بنی، اُس کی اتالیق ہوئی

خوش لباسی کا تو مقصود ہی تن ڈھانپنا ہے
کیسی پوشاک ہوئی، جسم پہ باریک ہوئی

وہ ہیں مسند پہ، جنہیں میں نے سکھایا چلنا
اپنی تقدیر کہ تاریک سے تاریک ہوئی

دیکھ کر مجھ کو وہ نفرت سے ہی منہ موڑ گئے
اپنی صورت یہ اُگل دان ہوئی، پِیک ہوئی

راز داروں نے ترے راز کیے فاش مگر
تجھ کو خوش فہمی کی بیماری رہی، ٹھیک ہوئی؟

کیا کہوں اس کو برے حال میں دیکھا ہے کہیں
وہ پڑی چوٹ کہ ہمّت مِری تفریق ہوئی

تو یہ کہتا ہے تجھے علمِ رجال آتا ہے
تو رشیدؔ اتنا بتا کیا تری تحقیق ہوئی؟




 

Rate it:
Views: 306
27 Aug, 2024
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL