میں نے شاید پاپ کیا
اس کو اپنی سوچوں میں بسایا
دل سنگھاسن پر بیٹھایا
اس کے ہونٹوں کی تھرکت کو
محبت کا صحیفہ سمجھا
آنکھ کے اک اشارے پر
اپنی منشا کے رنگین پنے
کل کے حسین سپنے
تیاگ کے قدموں میں رکھے
کہ اس کی انا کو تسکین پہنچے
بشری چہرے پر
گلابوں کی رنگت رقصاں رہے
مسکانوں کی شرارت رہے
آب حیواں ڈھونڈنے نکلا
ہونٹوں کی جنبش کو
کن کا راز سمجھا
آکاش کے اس پار بیٹھا
اب یہ سوچے ہوں
سیڑھی کیچھنے کا
اس نے کیوں پن کیا
گلاب جوڑے میں ہو
ضروری تو نہیں
قبریں بھی تو
گلابوں کی راہ دیکھتی ہیں
چاندی بالوں پر
گیندا کب اٹھتا ہے
جھریوں کے خواب
گھر کے نہ گھاٹ کے رہتے ہیں
آکاش کے اس پار بیٹھا
اب یہ سوچے ہوں
چاہت کے کنول
جیون کی راہوں میں
اعتبار کیوں نہیں رکھتے