چاہو تو لوٹ آؤ
کہ اب بھی تیری یادوں کی محفل سجی ھے
جہاں تیری باتوں کی خوشبو
میرے ہر پل کو مہکا جاتی ہے
چاہو تو لوٹ آؤ
کہ اب بھی پورے چاند کی رات چاندنی رقص کرتی ہے
جہاں تیری نظروں کی حدت
میرے رُخساروں کو چُھو جاتی ہے
چاہو تو لوٹ آؤ
کہ اب بھی تیری یاد کے جگنو جگمگاتے ہیں
جہاں تیرے وجود کی روشنی
میری تنہائی کو منور کر جاتی ہے
چاہو تو لوٹ آؤ
کہ اب بھی آنکھیں تیری دید کو ترستی ہیں
جہاں تیری سنگت کی چادر
میرے لبوں کو مُسکا جاتی ہے
چاہو تو لوٹ آؤ
کہ اب بھی محبت میں چاشنی باقی ہے
جہاں تیرے آنے کی اُمید
میرے خیالوں کو بہکا سی جاتی ہے
چاہو تو لوٹ آؤ
چاہو تو لوٹ آؤ