چراغ امید تم یوں ہی جلائے رکھنا
امید پر دنیا قائم ھے امید بندھائے رکھنا
پیار جگنو ھے دیکھنا جھلملائے گا اک دن
اندھیرے چھٹ جائیں گے آس لگائے رکھنا
یہ بھی نشانیان ھیں چند یار محبت کی
پھول کتابوں میں اپنے تم چھپائے رکھنا
اسکی مرضی ھے اگر وہ یار جفا کرتا ھے
تم عہدء وفا اپنے یوں ہی نبھائے رکھنا
عشق کی بھٹی میں جلنا کچھ آسان نہیں
جوالہ بننے تک خود یوں ہی تم جلائے رکھنا
یادء ماضی سے کوئی سیکھ لینا سبق ھمدم
کہ حال کو یون ھی نہ سینے سے لگائے رکھنا
ھے اسد نام کا بوکھا نہ کسی شہرت کا
تیرا دیوانہ ھے بس اسے دیوانہ نائے رکھنا