جگنوؤں کے جیسی ان آنکھوں کو رلایا نہ کرو
پلکیں جھکا کر جلتے چراغ بجھایا نہ کرو
دیکھو چھپ گیا ہے چاند شرما کر
یوں تم چہرے سے آنچل ہٹایا نہ کرو
الجھ رہے ہیں گیسو ہوا سے تیرے
تھام لو یہ گھٹا سورج کو ستایا نہ کرو
جب لکھ ہی لیتے ہو نام میرا ہتھیلی پہ
چوما کرو اسکو پھر مٹایا نہ کرو
ملنے سے پہلے بچھڑ جاتے ہو تم اکثر
کبھی بہت پچھتاؤ گے یوں ستایا نہ کرو
تاریکیاں مٹانا ہے کام تیرا
سچے عاشقوں کو تم جلایا نہ کرو
ظالم ہے زمانہ تُو بدنام نہ ہو جائے
روز پھول چڑھانے قبر پر میری آیا نہ کرو
کب سیکھو گے اصولِِ الفت تم رونق
ہر کس کو حال دل سنایا نہ کرو