چشمِ یاراں خُمار کی صورت
Poet: عنایت الرحمٰن By: عنایت الرحمٰن, ایبٹ آبادچشمِ یاراں خُمار کی صورت
خامشی میں پُکار کی صورت
اُس کی باتوں میں گنگناتا ہے
کوئی جھرنا کہیں آبشار کی صورت
اُس کا ہنسنا ، چمن کی بُود و باش
گلوں کے رنگ ، نویدِ بہار کی صورت
جمالِ یار ، خاص باعثِ انوار
تابشِ شمسِ نِصفُ النَہار کی صورت
ہم ترے عشق کے الاؤ میں
جل بجھے ہیں انگار کی صورت
نخلِ جاں پہ فصلِ گل میں تیری یاد
کِھل گئی ، برگ و بار کی صورت
اُس کے وعدے نہیں سوائے فریب
جل بجھے سب ، شرار کی صورت
ملول لطف پہ اور ستم پہ ہیں شاداں
بدل دی تم نے عیش و قرار کی صورت
عشق کا کھیل جیتنا ہے اگر
ڈھونڈ لو کوئی ھار کی صورت
تھی شبِ ہجر یُوں طویل و سیاہ
ہُو بہ ہُو ، گیسوئے یار کی صورت
گاہ جینا بھی ، گاہ مرنا بھی
حیات یعنی ، مسلسل آزار کی صورت
جی جلانا ہے جی کا آ جانا
خزاں میں ڈھلنا بہار کی صورت
پا گئے ، رفعتوں کا اوجِ کمال
جو بنے انکسار کی صورت
جتنی بڑھتی ہے اتنی گھٹتی ہے
زندگی ، ہجرِ یار کی صورت
عمرِ کوتاہ ، اُس سخی کی عطا
ساعتِ وصلِ یار کی صورت
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






