خود کو پھر گنہگار کر گزریں
چل تیرا اعتبار کر گزریں
رات باقی ہے بات باقی ہے
کیوں نہ تارے شمار کر گزریں
خامشی کے مہیب موسم میں
دل کی باتیں ہزار کر گزریں
نہ رہے خوف بہک جانے کا
خود پہ کچھ انحصار کر گزریں
آج دریا میں بہت مستی ہے
آج دریا کو پار کر گزریں
لب ہلاؤ وفور الفت میں
جاتے جاتے بہار کر گزریں