ھم نے سیکھا زندگی سے عمر گنوا کے
کیسے اڑتے ھیں طیور مخالف ھوا کے
زھن تو رھا آزاد شومئی قسمت
بند کمر ے میں ھے قیدی پابند سزا کے
غنچہ ہستی سے ھو گئے ھیں غافل
بہار آتی ھے کبھی کیسے پاؤں دبا کے
ٹوٹے ھوئے پتوں سے یہ جانا ھم نے
خزاں سے بھلا کیا چاھیں امید بنا کے
کچھ تسکین ملی تھی دریا کنار ے
اشکوں سے مگر اپنی پیاس بجھا کے
تم آو گے جلد ھی خشبویں کہتی ھیں
منادی کرا دی ھے شہر کو سجا کے
وہ لیتے ھیں شب بھر کا امتحان ھمارہ
ھم لیٹیں گے کانٹوں کے بچھونے بچھا کے
مجھ کو مجھ سے ھی سدا کا مسئلہ ھے
ڈبو دینگیں سمندر میں اپنا ھیولا بنا کے
کیسی ھے جیون کی بساط یہ عارف
چلنا ھے انگاروں پر پاؤں بچا کے