بکھر رہا ہے خیال کوئی
سوال کوئی,ملال کوئی
کہاں ہے ، کس کی؟
مجال کوئی
کہ آنکھ جھپکے
ترے تصور سے دور جائے
مگر یہ ضد کہ ضرور جائے
تمہارے غم میں سسک سسک کر
اُکھڑ چکی ہے طناب غم کی
مگر کسی کی مجال کیا ہے
کہ روک پائے
یہ سلسلہ ہائے روزو شب
اور اداس رستہ
اداسیوں کے شجر بھی دیکھو
کہ گاہے گاہے اُگے ہوئے ہیں
تو آؤ اپنی نگاہِ پر نم
سے آب دے کر
نمو بڑھائیں اُداسیوں کی
کسی کو روکیں،کسی سے روٹھیں
کسے منائیں؟
کسے منا کر گلے لگائیں؟
کبھی ملو نا کہ مسکرائیں
جو آگئے ہو تو کیا ٹھہرنا
چلو اُداسی کے پار جائیں..