چلو بات کرتے ہیں بیتے پل کی
پرانی یادوں کی گزرے کل کی
چھوڑ کے فکریں دنیا داری کی
تدبیر کوئی نکالے فراقِ حل کی
ساگر بھرا دیکھ کے مسکراتی ہے
بھیگی ریت بھی سدا ساحل کی
عشق ومحبت آج کا رواج نہیں
تہذیب ہے یہ یومِ اول کی
فون پے چلتی ہے جو عاشقی
توہینِ عشق ہے عاشقی آجکل کی
خاموش ہے سوچ رہا ہے شاید
سکیم نئی کوئی میرے قتل کی
مانا کہ تجھے معلوم ہے فنِ سخن
نہال تشریح کر میری غزل کی