عشق بھی اُن سے ہوا ہمیں
جن کا کوئی معلوم عنواں نہیں
تسلسلِ کارواں تھے ترے ساتھ
اب وہ سفینے برسوں سے رواں نہیں
دوری کا مطلب یہ نہ سمجھنا
تیری یادوں کے دل میں گلستاں نہیں
اِس لیئے ٹکڑے کیَے کے تصدیق کر لے
کے ہمارے دل میں تو کہاں نہیں
چلو تلاش کریں وہ عہدِ گُل
چلو یہاں سے چلیں یہ وہ مکاں نہیں
یوں ہی،آنکھ سے آنکھ نہیں ملاتے
جہاں،وہ تو مجھ سے نالاں نہیں